صابر علی
مبشر زیدی صاحب نے امریکی نظام تعلیم کی مداحی میں ایک پوسٹ لگائی تھی۔ اس پوسٹ کا لنک آخر میں دیا گیا ہے اور اس پر ہمارا تبصرہ درج ذیل ہے۔
زیدی صاحب کی تحریر کو اگر اس کے اجزائے ترکیبی میں تقسیم کیا جائے تو چار بنیادی مقدمات سامنے آتے ہیں:
1۔ امریکی نظامِ تعلیم خود احتسابی، تحقیق اور ارتقاء پر مبنی ہے جو طلبہ کے ثقافتی پس منظر جیسی باریکیوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔
2۔ جان ٹیلر گاتو کا نظریہ کہ امریکی اسکول سرمایہ دارانہ نظام کے لیے محض صارف پیدا کرتے ہیں، تیس سال پرانا، غیر تحقیقی اور محض ذاتی تجربات پر مبنی ہونے کے باعث ناقابلِ اعتبار ہے۔
3۔ گاتو کی تجویز کردہ ہوم اسکولنگ (گھریلو تعلیم) سماجی تربیت کے لیے ناقص ہے کیونکہ والدین تربیت یافتہ اساتذہ نہیں ہوتے۔
4۔ امریکی نظامِ تعلیم کی برتری کا ثبوت اس کی مادی کامیابیاں ہیں یعنی بہترین معیشت، عسکری طاقت اور دنیا بھر سے طلبہ کی آمد۔
اب ہم ان مقدمات کا بالترتیب محاکمہ کرتے ہیں۔
1۔ زیدی صاحب نے اپنی اسسٹنٹ پرنسپل کے حوالے سے جو واقعہ بیان کیا وہ بظاہر امریکی نظام کی خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، علم اصول کی روشنی میں ہمیں کسی بھی عمل کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کی غایت اور مقصد پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ”ڈفرینشی ایشن“ اور ”ثقافتی پس منظر“ کی رعایت کس مقصد کے تحت کی جا رہی ہے؟ کیا اس کا مقصد واقعی طالب علم کی روحانی، فکری اور اخلاقی نشوونما ہے تاکہ وہ ایک بہتر اور آزاد انسان بن سکے؟ یا اس کا مقصد متنوع پس منظر سے آنے والے افراد کو ایک معاشی اور ریاستی ڈھانچے میں زیادہ مؤثر طریقے سے ”جذب“ کرنا ہے تاکہ وہ نظام کے لیے زیادہ کارآمد پرزے بن سکیں؟ برصغیر کے تناظر میں جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو ہمیں برطانوی استعمار کی یاد آتی ہے۔ انگریزوں نے بھی ہندوستانیوں کے ”ثقافتی پس منظر“ پر گہری تحقیق کی تھی۔ ان کا مقصد ہندوستانیوں کی فلاح نہیں، بلکہ ان پر حکومت کرنے اور ان کے سماجی ڈھانچے کو کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کرنا تھا۔ لہٰذا، کسی نظام کا اپنے زیرِ اثر افراد کے پس منظر کا مطالعہ کرنا بذات خود کوئی خوبی نہیں، جب تک اس کا مقصد خیر پر مبنی نہ ہو۔ زیدی صاحب کا پیش کردہ واقعہ گاتو کے نظریے کی تردید نہیں کرتا، بلکہ اس کی تصدیق بھی کر سکتا ہے کہ نظام اپنی بقا اور کارکردگی بڑھانے کے لیے نت نئے اور زیادہ لطیف طریقے استعمال کرتا ہے۔
2۔ زیدی صاحب نے گاتو کے نظریے کو تین بنیادوں پر رد کیا: وہ پرانا ہے، تحقیقی نہیں اور ذاتی تجربے پر مبنی ہے۔ کسی نظریے کو صرف اس لیے رد کر دینا کہ وہ تیس سال پرانا ہے، ایک منطقی مغالطہ ہے۔ علم کی دنیا میں افکار کی قدر و قیمت ان کے زمانے سے نہیں، ان کی صداقت سے ہوتی ہے۔ کیا افلاطون کے مکالمات زیدی صاحب کے مقررہ معیار پر پورے اترتے ہیں؟ اس حساب سے تو انہیں بھی ترک اور مسترد کر دینا چاہیے۔ اگر گاتو کا بنیادی مقدمہ آج بھی سرمایہ دارانہ نظام کی ساخت پر صادق آتا ہے تو اس کے پرانے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان تیس سالوں میں امریکی نظام نے اپنی بنیادی سمت (یعنی معیشت کے لیے افرادی قوت کی تیاری) تبدیل کی ہے یا اسی سمت میں مزید مہارت حاصل کر لی ہے؟ زیدی صاحب ”تحقیق“ کا لفظ ایک خاص مغربی علمیاتی فریم ورک میں استعمال کر رہے ہیں جس میں مقداری ڈیٹا اور ہم مرتبہ نظرثانی کو حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایک معتبر اور صاحبِ بصیرت عالم کا سالہا سال پر محیط مشاہدہ اور تجربہ بذات خود علم کا ایک مستند ذریعہ ہے۔ گاتو تیس سال تک ایک ہی نظام کا حصہ رہے، ہزاروں طلبہ کا مشاہدہ کیا اور کئی ایوارڈ حاصل کیے۔ ان کے تجربے کو ”محض ذاتی خیال“ کہہ کر مسترد کرنا علمی دیانت کے منافی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی جج کسی معاشرے میں دہائیوں تک عہدے پر فائز رہنے کے بعد اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرے اور اسے یہ کہہ کر رد کر دیا جائے کہ آپ نے سروے فارم نہیں بھروائے۔ زیدی صاحب اپنی تحریر کا آغاز ہی اپنے ”ذاتی تجربے“ سے کرتے ہیں لیکن گاتو کے تیس سالہ تجربے کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک واضح تضاد ہے۔
3۔ زیدی صاحب اسکول کے سماجی فوائد گنواتے ہیں اور والدین کے غیر تربیت یافتہ ہونے کا نکتہ اٹھاتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کی اولین اور بنیادی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے اور گھر ہی پہلا مدرسہ ہے۔ ریاست یا اداروں کا کردار ثانوی اور معاون کا ہے۔ یہ نظریہ کہ ریاست یا اس کے ادارے والدین سے بہتر مربی ہیں، ایک جدید اور سیکولر تصور ہے جو خاندان کے کردار کو کمزور کرتا ہے۔ مصنف یہ تاثر دیتے ہیں کہ انتخاب صرف دو انتہاؤں کے درمیان ہے: ناقص ہوم اسکولنگ یا موجودہ ادارہ جاتی اسکولنگ۔ وہ اس امکان پر غور نہیں کرتے کہ تعلیم کا مقصد ہی بدل دیا جائے، چاہے وہ اسکول میں ہو یا گھر پر۔ گاتو کا اصل نکتہ اسکول کی عمارت پر نہیں، بلکہ اس کے فلسفے اور نصاب پر ہے۔ یہ کہنا کہ والدین نااہل ہیں، اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ یہ والدین خود اسی نظامِ تعلیم کی پیداوار ہیں جس پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اگر نظامِ تعلیم آزاد اور مفکر انسان پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے تو اس کی پیدا کردہ نسل اپنے بچوں کی تربیت کیسے کرے گی؟ یہ تو خود نظام کی ناکامی کا ایک اضافی ثبوت ہے۔
4۔ زیدی صاحب نے امریکہ کی معاشی و عسکری طاقت کو اس کے تعلیمی نظام کی کامیابی سے جوڑ دیا ہے۔ یہ ایک کلاسک منطقی مغالطہ ہے۔ امریکہ کی طاقت کے پیچھے اس کی جغرافیائی حیثیت، دو عالمی جنگوں کے بعد کی صورتحال، ڈالر کی عالمی حیثیت، ٹیکنالوجی پر اجارہ داری اور دنیا بھر سے بہترین دماغوں کو کھینچ لینا جیسے بیسیوں عوامل ہیں۔ ان سب کو نظر انداز کرکے صرف K-12 اسکولنگ کو اس کا سبب قرار دینا انتہائی سادہ لوحی ہے۔ سب سے بنیادی فکری خامی ”کامیابی“ کے پیمانے کا انتخاب ہے۔ کیا ایک نظام کی کامیابی کا معیار اس کی مادی پیداوار، ایجادات اور عسکری طاقت ہے؟ ایک ایسا نظام جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود شدید سماجی تنہائی، ذہنی امراض، طبقاتی تقسیم اور خاندانی نظام کی شکست و ریخت کا شکار ہو، اسے کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ زیدی صاحب نے وہی پیمانہ استعمال کیا ہے جس پر گاتو تنقید کر رہے ہیں، یعنی نظام کو اسی کے اپنے مادی معیارات پر پرکھنا۔ یہ گاتو کے بنیادی اعتراض کا جواب نہیں، بلکہ اس سے صرفِ نظر کرنا ہے۔
مبشر زیدی صاحب کی تحریر ایک سطحی اور مدافعانہ بیانیہ پیش کرتی ہے جو مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک سے مرعوبیت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ذاتی تجربے کو عمومیت دی، مخالف کے ٹھوس فکری اعتراضات کو سطحی بنیادوں پر رد کیا، اور آخر میں ایک نہایت کمزور اور مادی دلیل پر اپنے مقدمے کی عمارت کھڑی کی۔ زیدی صاحب کا تجزیہ اس بنیادی فلسفیانہ سوال کو چھیڑنے سے قاصر ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس کا مقصد ایک آزاد، باشعور انسان تیار کرنا ہے یا ایک کارآمد، مطیع اور صارف تیار کرنا ہے؟ گاتو کا کام اس دوسرے مقصد پر ایک گہری تنقید ہے، جسے زیدی صاحب سمجھنے یا اس کا سامنا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
https://www.facebook.com/share/p/1CbEwBYoPX/?mibextid=wwXIfr