تداول، تداخل اور تقریب

صابر علی

(نوٹ: عبدالرحمٰن طہ کی فکر میں تداول، تداخل اور تقریب  کی یہ تفہیم وائل حلاق کی کتاب ”اصلاحِ جدیدیت“ کے مطالعہ پر مبنی ہے)

عبدالرحمٰن طہٰ کے فکری منصوبے میں تداول، تداخل اور تقریب تین ایسے بنیادی اصول ہیں جو روایت کے ساتھ نئے سرے سے سوچ بچار کرنے اور جدیدیت کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ایک منظم اور جامع طریقہ کار فراہم کرتے ہیں۔ یہ اصول معاصر عرب اسلامی فکر میں موجود خامیوں، خاص طور پر مغربی تصورات پر اندھا دھند انحصار اور روایت کے انتشار کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی نمایاں مثال جابری کا فکری کام ہے۔

تداول

تعریف اور مقصد

1۔ تداول کا مطلب کاموں کی ایسی استقامت ہے جس کے فوائد ذات اور ”غیر“  دونوں تک وسیع ہوں اور یہ مستقبل کے اغراض کو بھی پورا کرے تاکہ یہ ایک اخلاقی بہتری اور دینی مصلحت بن جائے۔

2۔ یہ ہابرماس کے فلسفۂ ابلاغی عمل کو ایک نئی سطح پر لے جانے اور اسے اخلاقی عمل کے تقاضوں سے مربوط کرنے کی کوشش ہے تاکہ اسے مادیت پرست عالم گیریت کے خلاف کھڑا کیا جا سکے۔

3۔ اس میں عقیدہ، زبان اور علم تین بڑی شاخیں ہیں۔

تداول کے بنیادی رہنما اصول

1۔ عقیدہ: عقیدے کو تب تک بے معنی سمجھا جاتا ہے جب تک قول اور عمل میں مطابقت نہ ہو اور گفتمان اور طرزِ عمل میں موافقت نہ ہو۔ اس کی بنیاد تین اصولوں پر ہے:

1۔ شریعت کو حکمِ الٰہی ہونے کے ناتے افضلیت حاصل ہے۔

2۔شریعت بلاشرکت غیرے توحید الٰہیہ کی حامل ہے۔

3۔مخلوق پر ارادۂ الٰہی مطلق ہے۔ طہٰ کا مؤقف ہے کہ مغربی جدیدیت بھی ماورائیت کی اپنی ذاتی شکلیں رکھتی ہے اور اس کا ریاستی قانون اسی قدر دینیات سے مغلوب ہے جس قدر شریعت۔

2۔ زبان :  زبان پر ایسا عمل جو ذات اور غیر دونوں کے لیے نفع بخش ہو، زبان کی رواجی اور عام طور پر مستعمل شکلیں اختیار کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے تین بنیادی معیارات ہیں:

1۔ قرآنی وحی ہونے کے ناتے اسے افضلیت حاصل ہے۔

2۔ اس زبان کے معروف قواعد اختیار کیے جائیں۔

3۔ کفایتِ اظہار ضروری ہے۔ طہٰ کے نزدیک زبان فکر کے لیے اٹوٹ ہے اور محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ فکر کی تشکیل کرتی ہے، اور یہ کبھی غیر اقداری نہیں ہوتی۔

3۔ علم:علم کی حتمی قدر اس کے اطلاق میں ہے اور علم پر عمل ہی علم کی جستجو کا جواز ہے۔ اس کے لیے تین اصول ہیں:

1۔ اسلامی علم، فلسفے کے لحاظ سے، علم کی تمام دیگر شکلوں سے فائق اور افضل ہے اور علم کے ماخذات روایت کے ساتھ اور اس کے اندر سے شروع ہوں نہ کہ یورپی علمیات کو معیار بنایا جائے۔

2۔ نظری علم عمل اور عملی علم پر منحصر ہوتا ہے۔

3۔ اثباتیت پسندانہ عقل (العقل الوضعی) عقلِ شرعی پر منحصر ہے۔ طہٰ کے فلسفہ میں عمل کو نظری علم پر فوقیت حاصل ہے۔

تداخل

تعریف اور مقصد

1۔ تداخل سے مراد اسلامی روایت کی مختلف شاخوں اور تقسیمات کا باہمی ربط اور باہمی نفوذیت ہے۔ یہ اصول روایت کو وحدت کے اندر کثرت سمجھتا ہے اور انتخابی تخصیص سے بچاتا ہے۔

2۔ طہٰ کے نزدیک، علوم باہم آمیزش کرتے ہیں، باہم لپٹتے ہیں، باہم گندھے جاتے ہیں، باہم سرایت کرتے ہیں اور باہم بُنے جاتے ہیں۔

تداخل کی اقسام

1۔ داخلی باہمی سرایت

1۔ یہ دیسی اسلامی علوم (جیسا کہ لسانیات، قرآنی تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، اور کلام) کے مابین واقع ہوتی ہے۔

2۔ اس صورت میں تعلق کی معرّف قوت ”اطلاقی“  علم میں مقیم ہوتی ہے۔

3۔ طہٰ کے نزدیک، ابو اسحاق الشاطبی کا فقہی نظریہ داخلی باہمی سرایت کا ”کامل ترین مثالی نمونہ“ ہے۔ شاطبی نے مقاصد (قانون کے مقاصد) کو اصول فقہ اور اخلاق کے سنگم اور باہمی سرایت کی بڑی ساختوں کا اظہار قرار دیا ہے۔

4۔ یہاں علم کا حصول محض ایک نظری یا علمیاتی سرگرمی نہیں بلکہ ایک جاری عمل کے طور پر اخلاقی تہذیبِ نفس سے معمور ہے۔

2۔ خارجی باہمی سرایت

1۔ یہ تب ہوتی ہے جب دیسی علوم ”انتقالی“ یا ”درآمدی“ علوم (یونانی، ایرانی، ہندوستانی) سے تعامل کرتے ہیں۔ یہ مزید دو اقسام میں تقسیم ہے:

1۔ تداخل خارجی قریب

1۔ اس کا مقصد کسی درآمدی علم کو متعلقہ دیسی ہم سَروں میں مدغم کرنا ہوتا ہے۔

2۔ غایتی مطلوب دیسی علم کی توضیح، توسیع اور استحکام ہی رہتا ہے (مثلاً علم الکلام میں یونانی فلسفے کا دخول، اصول الفقہ میں ارسطوئی منطق کا دخول)۔

3 ۔ یہ تداول کے شعبے اور اس کے اطلاقی تقاضوں کے لیے سازگار ہے۔

2۔ تداخل خارجی بعید

1۔ جب اسلامی علم درآمدی علم کے احکامات کے تابع ہو اور اسے سرفراز کرنے کی سمت میں چلے۔

2۔ اس کے نتیجے میں مرکزی دھارے کی تداولی روایت سے دور ہونے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔

3۔ طہٰ ابن رشد کی مابعدالطبیعات کو خارجی باہمی سرایت کا عمدہ ترین اظہار اور ایک ”مثالی نمونہ“ قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ روایت کے جدلیاتی نظام (مجال التداول) کے اعمال پر استوار تقاضے پورے کرنے میں بعید ترین مقام پر ہے۔ ابن رشد نے علوم کو تقسیم کیا اور ارسطوی فلسفے کو فائق بنایا، جس کی طہٰ تنقید کرتے ہیں۔

تقریب

تعریف اور مقصد

1۔ تقریب اس طریقہ کار سے نسبت رکھتی ہے جو مقامی (دیسی) علوم سے بحث کرتا ہے جب تک کہ درآمدی علوم ان پر اپنا اثر دکھاتے رہیں۔

2۔ اس کا مقصد درآمدی علوم کو ان اقدار اور اصولوں سے محروم کرنا ہے جو مقامی علم کے اقدار اور اصولوں سے متناقض ہوتے ہیں (جیسا کہ یونانی منطق اور مابعدالطبیعات)۔

3۔ طہٰ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غیر مقامی علوم کا مطالعہ ایک چیز ہے لیکن بلاسوچے سمجھے ان سبھی کو اختیار کر لینا دوسری بات۔

تقریب کے تین ستون

1۔ اعتقادی کام (تشغیل عقدی):

1۔کسی درآمدی علم کی ایک مقامی اعتقاد کے ساتھ تقریب کی جاتی ہے اور اسے ان اقدار اور اصولوں سے محروم کر دیا جاتا ہے جو مقامی علم کے اقدار اور اصولوں سے متناقض ہوتے ہیں۔

2۔ طہٰ ابن رشد کے اس مؤقف سے اختلاف کرتے ہیں کہ برہانی دلیل کے نتائج شریعت سے متناقض ہوں تو ظاہر معنی کی تعبیر نو کی جائے۔

2۔ لسانی کفایت:

1۔ یہ عربی زبان کا ایک خصوصی وصف ہے۔ فصیح اختصار کے لیے ایک لسانی اجتماعیت ضروری ہے جو منقسم اور قابل تقسیم معانی، معلومات اور علم میں شریک ہو۔

2۔ یہ نری لفاظی اور ترجمے کی غیر محاوریت اور ناقابلِ ترجمہ اجنبی تصورات کے خلاف ایک ضمانت ہے۔

3۔ ابن حزم کی ”التقریب لحد المنطق“ کی مثال دی جاتی ہے جس میں ارسطوئی منطق کو علم بیان سے منسلک کیا گیا۔

3۔ ترمیم یا تناظریتِ نو:

1۔ منقولی علم کے موضوع مواد کو مقامی علوم کے قواعد کے مطابق قابل رسائی بنانا۔

2۔ طہٰ کے مطابق، ابن تیمیہ کی ”الرد علی المنطقیین“اس کی بہترین مثال ہے، جہاں ابن تیمیہ نے شرعی اصولوں کے عملی ضوابط کے مطابق ارسطوئی منطقی دلائل کی توسیع و تشکیل نو کی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *