سوشل میڈیا پر آزادی کی نقالی اور خودنمائی کا فریب

عثمان عمر

انسان نے ہمیشہ اپنی پہچان تلاش کی ہے۔ کبھی آئینے میں، کبھی کتاب میں، کبھی کسی دوسرے انسان کی آنکھ میں۔ مگر ڈیجیٹل عہد نے اس تلاش کی نوعیت بدل دی ہے۔ اب انسان اپنی پہچان تلاش نہیں کرتا، اسے پیدا کرتا ہے، تصویروں، لفظوں اور لائکس کے ہجوم میں۔ یہ وہ نیا انسان ہے جسے ہم ”سوشل میڈیا کا انسان“ کہہ سکتے ہیں جو خود کو آزاد سمجھتا ہے مگر دراصل ایک ایسے نظام کا غلام ہے جس نے اظہار کو تماشا اور آزادی کو نقالی میں بدل دیا ہے۔

سوشل میڈیا کی دنیا ظاہراً آزادی کا میلہ لگتی ہے۔ ہر شخص بول سکتا ہے، دکھا سکتا ہے، رد کر سکتا ہے۔ گویا تاریخ میں پہلی بار اظہار پر کوئی قدغن نہیں۔ مگر یہی آزادی ایک عجیب جال بھی ہے کیونکہ یہاں بولنے کی قیمت خاموشی سے زیادہ ہے۔ اس عہد میں اگر آپ خاموش رہیں تو غائب ہو جاتے ہیں۔ آپ کی موجودگی آپ کی ”پوسٹس“ کی تعداد سے ماپی جاتی ہے۔ اظہار اب مکالمہ نہیں، بقا کی جنگ بن چکا ہے۔ ہر انسان اس خوف میں مبتلا ہے کہ اگر وہ نہ بولا تو منظر سے خارج ہو جائے گا۔ یہ وہ آزادی نہیں جو شعور سے جنم لے بلکہ وہ مجبوری ہے جو نظام نے خود پیدا کی ہے۔

ڈیجیٹل دنیا میں خودی اپنی اصل صورت میں نہیں رہتی۔ آج کی خودی فلٹرز، ایڈیٹنگ ایپس اور فالورز میں بکھر گئی ہے۔ انسان اب وہ نہیں جو وہ ہے، بلکہ وہ ہے جو وہ دکھاتا ہے۔ خودی کی جگہ اب ایک مصنوعی شبیہ نے لے لی ہے، ایک چمکتی ہوئی، مسکراتی، مطمئن مگر اندر سے خالی تصویر۔ انسان نے اپنی روح کو الگ کر کے اپنی ظاہریت کی پیکنگ کر دی ہے۔ وہ اپنے وجود کو برانڈ کی طرح منیج کرتا ہے۔ ہر لمحہ وہ خود کا اشتہار بن چکا ہے۔ اس کی نیکی، اس کا غم، اس کی دعا سب کچھ دکھانے کے قابل بنا دیا گیا ہے۔ گویا اب احساس بھی پرفارمنس ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سوشل میڈیا کا انسان ”آزادی کی نقالی“ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے خود کو ظاہر کر کے سماج کی قیود توڑ دی ہیں، مگر حقیقت میں وہ صرف ایک نئے قید خانے میں داخل ہوا ہے جس کے دیواریں شیشے کی ہیں اور جن پر اس کے ہی عکس چمک رہے ہیں۔ آزادی کا یہ فریب سب سے خطرناک ہے کیونکہ یہ قید کو آزادی کے لباس میں پیش کرتا ہے۔ وہ خود فیصلہ نہیں کرتا کہ کیا کہنا ہے، کیا دکھانا ہے، کیا چھپانا ہے، یہ سب الگورتھم طے کرتا ہے۔ سوشل میڈیا نے آزادی کے تصور کو ری ایکشن میں بدل دیا ہے۔ آپ کی رائے اب آپ کی نہیں رہتی؛ وہ ان ”ٹاپکس“ کی پیداوار ہے جو آپ کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ یوں آزادی ایک تماشا بن گئی ہے جس میں ہر کوئی اداکار ہے مگر اسکرپٹ کہیں اور لکھا جاتا ہے۔

یہ فریب صرف سیاسی یا سماجی نہیں، وجودی ہے۔ انسان اب اپنے اندر کے خلا کو بیرونی منظوری سے بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی شناخت ”دوسرے“ کی نگاہ میں موجود ہے۔ وہ تبھی مطمئن ہوتا ہے جب اسے دیکھا جائے، سنا جائے، سراہا جائے۔ مگر یہ دیکھے جانے کی خواہش دراصل روحانی بھوک ہے جو ظاہریت کے پردوں میں چھپ گئی ہے۔ سوشل میڈیا نے انسان کو یہ یقین دلایا کہ خودنمائی ہی خودی ہے، حالانکہ خودنمائی خودی کی موت ہے۔

اسلامی فکر میں انسان کی پہچان اخلاص سے ہے یعنی وہ جو نظر نہ آئے مگر موجود ہو، وہ جو دکھانے سے نہیں بلکہ چھپانے سے جیتا ہے۔ مگر آج کا انسان اپنی نیت کو بھی اعلان میں بدل دیتا ہے۔ وہ جو کبھی ”ریا“ کہلاتی تھی، اب ”برانڈنگ“ کہلاتی ہے۔ اور جو کبھی ”سکوتِ ذکر“ تھا، اب ”غیر متعلق“ بن گیا ہے۔

اس نئی دنیا میں اظہار کی سیاست نے خاموشی کو جرم بنا دیا ہے۔ اب کسی کا خاموش رہنا اس کے خلاف دلیل سمجھا جاتا ہے۔ مگر تصورِ اظہار، لفظ کی ذمہ داری سے بندھا ہوا ہے۔ ”قولِ سدید“ وہ قول ہے جو عدل اور سچائی کے توازن پر قائم ہو۔ سوشل میڈیا کا اظہار اس کے برعکس، جذبات اور رفتار کے تابع ہے۔ یہاں سچائی وہ ہے جو سب سے تیزی سے پھیل جائے۔ اس لیے ہر خبر، ہر رائے، ہر احتجاج لمحاتی بن گیا ہے۔ کوئی چیز دیرپا نہیں رہتی، کیونکہ ڈیجیٹل یادداشت کو فراموشی کی لت لگی ہوئی ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جس میں انسان اپنی معنویت کھو رہا ہے۔

پاکستان جیسے معاشروں میں، جہاں پہلے ہی شناخت کی کشمکش موجود ہے، سوشل میڈیا نے ایک نئی ذہنی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ اب مذہب، سیاست، اور معاشرت سب ”رائے“ کی سطح پر منڈی کی طرح چلنے لگے ہیں۔ ہم سب اب صارف بھی ہیں اور مواد بھی۔ ہمارا دکھ، ہمارا یقین، ہمارا اخلاق سب اس منڈی کی زبان میں ڈھل کر اپنی معنویت کھو دیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اجتماعی شعور کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے، مگر یہ ٹکڑے اکٹھے چیختے ہیں، یوں ایک ایسا شور پیدا ہوتا ہے جس میں کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی۔

یہ سب کچھ دراصل جدیدیت کے اس فلسفے کا منطقی انجام ہے جس نے انسان کو مرکزِ کائنات بنایا مگر اس مرکز کو کسی مقصد سے خالی چھوڑ دیا۔ جب انسان نے خدا کو خارج کیا تو اس نے اپنی جگہ بھرنے کے لیے ”خود“ کو خدا بنا لیا۔ سوشل میڈیا اسی خود پرستی کا مقدس مندر ہے جہاں ہر شخص اپنے عکس کے سامنے جھکتا ہے۔ مگر یہ عکس روشنی سے نہیں، سکرین سے بنتا ہے، ایک سرد روشنی جس میں گرمیِ ایمان اور حیاتِ روح مفقود ہے۔

نجات اسی وقت ممکن ہے جب انسان دوبارہ اپنے اندر لوٹ آئے، اس ”میں“ کی طرف جو ظاہر نہیں بلکہ باطن میں ہے جو دکھائی نہیں دیتا مگر حقیقتاً موجود ہے۔ انسان کو ”ظاہر“ سے ”باطن“ کی طرف آنا چاہیے۔ جب تک انسان اپنی خاموشی سے دوستی نہیں کرتا، وہ آزادی کے فریب سے باہر نہیں آ سکتا۔ حقیقی آزادی وہی ہے جو بندگی سے جنم لے، جو انسان کو خود سے نجات دے۔

سوشل میڈیا کا انسان اپنی ہی تخلیق میں گم ہے۔ وہ بھول چکا ہے کہ اظہار اگر عبادت نہ ہو تو شور بن جاتا ہے اور آزادی اگر اخلاق سے خالی ہو تو غلامی میں بدل جاتی ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اس روشنی کے تماشے سے آنکھیں بند کر کے اپنے دل کے اندھیرے میں جھانکیں۔ اسی اندھیرے میں سچ کی پہلی چمک جنم لیتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *