طاقت کے جدید بیانیے کا تنقیدی جائزہ

عثمان عمر

جدید دنیا میں طاقت کی نوعیت خاموشی سے بدل چکی ہے۔ وہ طاقت جو کبھی تلوار، تخت یا فوج سے وابستہ تھی، اب ڈیٹا، منڈی اور بیانیے کے ذریعے بروئے کار آتی ہے۔ طاقت کی شکل ظاہراً نرم اور شفاف لگتی ہے مگر اس کی گرفت پہلے سے کہیں زیادہ گہری ہو چکی ہے۔ جدید ریاست جو کبھی شہریوں کے تحفظ کا ضامن سمجھی جاتی تھی، اب ان کی زندگیوں کی معمار بن بیٹھی ہے۔ وہ طے کرتی ہے کہ کون وفادار ہے، کون خطرہ، کون شہری اور کون مشتبہ۔ جدید ریاست سکیورٹی، ترقی اور نظم کے نام پر ایک ایسا نظام قائم کر چکی ہے جو جسموں کی نہیں بلکہ ذہنوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اب حکمرانی توپ یا بندوق سے نہیں بلکہ ڈیجیٹل نگرانی اور موبائل ایپس کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں جدید ریاست فرد کی آزادی کے گرد تحفظ کے نام پر ایک نادیدہ حصار کھینچ دیتی ہے۔

طاقت کا دوسرا چہرہ منڈی ہے۔ سرمایہ دارانہ منطق نے انسان کی ہر قدر کو قیمت میں ڈھال دیا ہے۔ علم، ثقافت، مذہب حتیٰ کہ اخلاق سب کسی نہ کسی مارکیٹ کے اندر کھپنے والی اشیا بن چکے ہیں۔ جدید معیشت کا سب سے بڑا فریب یہی ہے کہ اس نے آزادی کو انتخاب کا نام دیا مگر وہ انتخاب دراصل منڈی کی پیشگی طے شدہ خواہشات کے اندر محدود ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ آزاد ہے حالانکہ وہ صرف وہی چاہ سکتا ہے جو اسے بیچا جا سکتا ہے۔ کمپنیاں اب صرف مصنوعات نہیں بیچتیں بلکہ اخلاقی تاثر بھی بیچتی ہیں۔ ماحول دوستی، خواتین کے حقوق، مذہبی روایت سب کو اشتہار کا مضمون بنا دیا گیا ہے۔ اشتہاری دنیا میں ”نیکی“ اور ”ترقی“ محض برانڈ کے نعرے بن چکے ہیں۔ صدقہ، فیشن کے زیورات کے ساتھ فروغ پاتا ہے اور حجاب مارکیٹنگ کی مہموں میں شامل ہو کر اپنی روح کھو دیتا ہے۔

ریاست اور منڈی کے اس گٹھ جوڑ نے اخلاق کو ضمیر کی بجائے ایک تکنیک میں بدل دیا ہے۔ حکومتیں اب اخلاقی زبان میں سیاسی نظم قائم رکھتی ہیں۔ وہ ”اچھے شہری“ اور ”ترقی دشمن عناصر“ جیسے اخلاقی استعارے تراش کر عوامی ذہن کو قابو میں رکھتی ہیں۔ دوسری طرف منڈی نے ”اچھے انسان“ کی تعریف بدل دی ہے۔ اچھا انسان وہ ہے جو زیادہ خرچ کرے، زیادہ دکھائے، زیادہ پیدا کرے۔ نیکی اب نیت سے نہیں، تاثر سے پہچانی جاتی ہے۔ ظلم اگر قانونی دائرے میں ہو تو قابلِ قبول ہے۔ اس طرح اخلاق طاقت کے تابع ہو گیا ہے، نہ کہ طاقت اخلاق کے تابع۔

طاقت کا جدید بیانیہ اپنے آپ کو ”ترقی، سلامتی اور نظم“ کے نام پر پیش کرتا ہے۔ یہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ سہولت، نظم اور کنٹرول انسانی بہبود کے لیے ضروری ہیں۔ مگر سہولت ہمیشہ آزادی کی قیمت پر ملتی ہے۔ آج کا انسان اپنے آرام کے بدلے اپنی خودی دے چکا ہے۔ اسلامی فکر میں طاقت ایک امانت ہے یعنی وہ اخلاقی بوجھ جو عدل کے ساتھ برتا جانا چاہیے۔ مگر جدید ریاستوں میں طاقت امانت نہیں، پالیسی ہے؛ اور پالیسی وہ شے ہے جو اخلاق کو ”عملی“ بناتی ہے یعنی مصلحت کے تابع۔ یہی وہ لمحہ ہے جب اخلاقی اصول اپنی آفاقی حیثیت کھو بیٹھتے ہیں اور طاقت کی ضرورت کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔

یہ صورتِ حال ہمیں اس نکتے تک لے آتی ہے جہاں طاقت کا جواز اخلاق سے نہیں بلکہ کارکردگی سے لیا جاتا ہے۔ جو کامیاب ہے، وہ درست ہے۔ جو نفع دیتا ہے، وہ جائز ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اخلاق کمزور ترین فریق بن گیا ہے۔ ریاست اس کو اپنے بیانیے کے تابع رکھتی ہے، منڈی اس کو اپنی مارکیٹنگ کے تابع، اور فرد اپنی خواہش کے تابع۔ مگر اسلام کی اخلاقیات ان تینوں دائرے توڑ دیتی ہے۔ وہ انسان کو خدا کے سامنے جواب دہ ٹھہراتی ہے، نہ ریاست کے، نہ منڈی کے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر طاقت اور اخلاق کا حقیقی تعلق قائم ہو سکتا ہے۔ طاقت اگر خدا سے منقطع ہو جائے تو ظلم بن جاتی ہے اور اخلاق اگر طاقت سے خالی ہو تو بے اثر۔

اس بحران سے نجات صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم طاقت کی اخلاقی تنظیم نو کریں۔ ریاست کو خادم سمجھا جائے، منڈی کو وسیلہ اور انسان کو مقصد۔ ترقی کا پیمانہ نفع نہیں بلکہ عدل ہو، اور کامیابی کا معیار پیداوار نہیں بلکہ نیکی۔ اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ طاقت کی اصل غایت تسخیر نہیں، خدمت ہے؛ اور اخلاق کی اصل بنیاد خوف نہیں، محبت ہے۔ جب تک ہم طاقت کو اخلاق کے تابع نہیں بناتے، تب تک ترقی محض ظاہری چمک رہ جائے گی اور انسان اپنی روحانی مرکزیت کھو بیٹھے گا۔

طاقت کے اس جدید بیانیے نے انسان کو ایک عدد، ایک صارف، ایک تابع میں بدل دیا ہے۔ مگر انسان محض معیشت یا انتظامی اکائی نہیں۔ وہ ایک روحانی وجود ہے جس کی اصل قدر اس کے اخلاقی شعور میں ہے۔ ریاست اگر امانت بن جائے، منڈی اگر خدمت کا ذریعہ اور اخلاق اگر ضمیر کی آواز تو شاید ہم پھر سے وہ دنیا تعمیر کر سکیں جس میں طاقت عدل کے تابع ہو اور انسان اپنی روح کی آزادی میں زندہ ہو۔ طاقت کا سب سے اعلیٰ مصرف انصاف اور احسان ہے، نہ کہ تسلط اور نفع۔ یہی وہ پیغام ہے جو آج کے تمام جدید نظاموں کے خلاف سب سے بڑی اخلاقی بغاوت بن سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *