علم اور اخلاق کے درمیان رشتہ انسانی فکر کی قدیم ترین بحثوں میں سے ہے۔ قدیم یونان سے لے کر جدید اسلامی فلسفے تک یہ سوال بار بار اٹھایا گیا کہ کیا علم خود بخود اخلاقی ہوتا ہے یا اخلاق علم سے ماورا ایک روحانی جوہر ہے؟ مسلم مفکرین نے اس سوال کو محض نظری سطح پر نہیں بلکہ وحی، عقل اور عمل کی ہم آہنگی میں سمجھنے کی کوشش کی۔ ارسطو کے نزدیک اخلاقی علم کا مقصد محض ”جاننا“ نہیں بلکہ ”بننا“ ہے۔ ارسطو کہتا ہے کہ علمِ اخلاق کسی ریاضیاتی قضیے کی طرح نہیں بلکہ ایک ”عادتِ خیر“ ہے جو مشق اور کردار سازی سے حاصل ہوتی ہے(1)۔ ارسطو کے لیے ”علم“ تب ہی اخلاقی بن سکتا ہے جب وہ ”عمل“ سے جڑا ہو یعنی انسان اپنی عقلِ عملی کے ذریعے خیرِ اعلیٰ کی طرف متوجہ ہو۔ اسلامی فکری روایت نے ارسطو کے اس اصول کو قبول کیا مگر اسے وحی اور روحانیت کے دائرے میں نئے معنی دیے۔ ابن مسکویہ نے اپنی کتاب ”تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق“ میں اخلاق کو عقل، دین اور تربیت کے امتزاج کے طور پر پیش کیا۔ ان کے نزدیک اخلاقی علم صرف وہ نہیں جو عقل سکھائے بلکہ وہ جو ”نفسِ ناطقہ“ کو تزکیہ کے ذریعے نورانی بنائے۔ ابن مسکویہ کے لیے علم اور اخلاق کا باہمی رشتہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک انسان اپنی عقل کو خیر کے تابع اور اپنے نفس کو ضبط میں نہ لائے۔(2) امام ابو حامد الغزالی نے اخلاقی علم کو ”علمِ باطن“ کے طور پر تعبیر کیا۔ ”احیاء علوم الدین“ میں آپ لکھتے ہیں: ”علم وہ ہے جو دل کو بدل دے، کردار کو سنوار دے، اور انسان کو قربِ الٰہی کی راہ پر ڈال دے۔“ امام غزالی رحمہ اللہ کے نزدیک اخلاقی علم کا اصل ماخذ عقل نہیں بلکہ ”نورِ قلب“ ہے جو ایمان اور عملِ صالح کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک عالمِ غیر عامل دراصل ”بے نور“ ہے کیونکہ وہ علم کو اخلاقی سطح پر بالفعل نہیں بناتا۔(3) ملا صدرا نے اپنے فلسفۂ ”الحکمة المتعالیة“ میں اخلاقی علم کو وجودی سطح پر سمجھا۔ ان کے مطابق علم اور وجود ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ لہٰذا جو شخص علم حاصل کرتا ہے، وہ دراصل اپنے وجود کو اخلاقی طور پر بدلتا ہے۔ اخلاق محض خارجی ضابطہ نہیں بلکہ وجود کی باطنی کیفیت ہے۔(4) یہی سلسلہ جدید عہد میں طہ عبد الرحمٰن تک پہنچتا ہے جنہوں نے مسلم اخلاقی فکر کو جدید مغربی فلسفے خاص طور پر کانٹ، ہابرماس اور ہائیڈیگر کے مقابل ایک ”روحانی-عملی اخلاقیات“ کی صورت میں تشکیل دیا۔ طہ عبد الرحمٰن کی بنیادی تصنیفات جیسے ”روح الدین: من ضیق العلمانية إلى سعة الائتمانية“ (2006) اور ”سؤال الأخلاق“ (2000) میں اخلاق کو ”علم“ کی اعلیٰ ترین صورت قرار دیتے ہیں۔ آپ کے نزدیک مغربی عقل محض ”ابزاری عقل“ ہے جو نفع، طاقت اور افادیت پر مبنی ہے جبکہ اسلامی عقل ”ائتمانی عقل“ ہے جو امانت، ذمہ داری اور جواب دہی پر قائم ہے۔ (5) طہ عبد الرحمٰن کے نزدیک ”اخلاقی علم“ تین جہتوں پر مشتمل ہے: 1۔ معرفت جو انسان کو حقیقتِ خیر سے آگاہ کرتی ہے۔ 2۔ تخلق جو اس معرفت کو کردار اور عمل میں منتقل کرتی ہے۔ 3۔ تحقق جو انسان کو اپنی اخلاقی ذمہ داری کے شعور میں مستحکم کرتی ہے۔ یہی ”تخلّق“ اسلامی روایت کا وہ جوہر ہے جو ارسطوئی فضیلت اخلاق سے مختلف ہے کیونکہ یہ محض انسانی عقل نہیں بلکہ وحی، عشق اور نیت کو شامل کرتا ہے۔ طہ عبد الرحمٰن کے نزدیک علم اگر اخلاقی نہ ہو تو وہ محض ”تسلط“ کا ذریعہ بن جاتا ہے، وہ علم جو مخلوق کو مسخر کرے مگر خالق کی رضا سے خالی ہو۔ یہ تصور جدید دور کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ جب علم کو طاقت اور منڈی کے تابع کر دیا گیا ہے، مسلم فکری روایت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ علم کا مقصد ”فہم“ نہیں بلکہ ”تزکیہ“ ہے۔ طہ عبد الرحمٰن کے الفاظ میں: ”العمل بالعلم هو عينه الأخلاق؛ لأن الأخلاق ليست تنظيراً، بل تصديق بالفعل“ (6) ”عمل کے ساتھ علم ہی اخلاق ہے؛ کیونکہ اخلاق کوئی نظریہ نہیں، بلکہ عمل میں صداقت ہے۔“ یوں ارسطو سے طہ عبد الرحمٰن تک کا یہ سفر محض فلسفے کی تاریخ نہیں بلکہ انسان کے باطن کی تاریخ ہے، وہ سفر جس میں علم اپنی اخلاقی اصل کی طرف لوٹتا ہے۔ اخلاقی علم وہ ہے جو عقل کو ایمان سے، معرفت کو عمل سے اور آزادی کو امانت سے جوڑتا ہے۔ حوالہ جات Aristotle. Nicomachean Ethics. Translated by Terence Irwin. Indianapolis: Hackett, 1985. Book II, 1103b. ابن مسکویہ۔ تہذیب الاخلاق و تطھیر الاعراق۔ بیروت: امریکن یونیورسٹی آف بیروت پریس، 1966۔ الغزالی۔ احیاء علوم الدین۔ قاہرہ: دارالمعارف، 1939۔ ملا صدرا۔ الاسفار الاربعہ۔ تہران: المکتبۃ الاسدیۃ، 1960۔ طہ عبدالرحمٰن۔ روح الدین: من ضیق العلمانیۃ الیٰ سعۃ الائتمانیۃ۔ کاسابلانکا: المرکز الثقافی العربی، 2006۔ طه عبد الرحمن،سؤال الأخلاق: مساهمة في النقد الأخلاقي للحداثة الغربيۃ۔ الدار البيضاء: المركز الثقافي العربي، 2000، ص. 45.