صابر علی
ابہام سے پاک اور فکری دیانت لیے ہوئے سیدھے سپاٹ تجزیات خال خال ہی ملتے ہیں۔ اس اعتراف کے بعد ایسے تجزیات پر سوال ہے کہ تجربے اور نظریے کے درمیان ایک سخت اور قطعی تقسیم پائی جاتی ہے یا نہیں؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب محض نظری وسائل سے نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے کہ نظریہ خود خلا میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ تاریخی اور اجتماعی تجربات ہی سے کشید کیا جاتا ہے۔ مارکسزم صنعتی سرمایہ داری کے تجربے سے اور پسِ نوآبادیاتی نظریہ استعمار کے تلخ تجربے سے ہی وجود میں آیا۔ خود تنقید یعنی کریٹیکل تھیوری بھی مارکسی انقلاب کی ناکامی اور روشن خیالی کے استبداد کے تجربات سے سامنے آئی ہے۔ تجربہ محض ایک محرک نہیں بلکہ نظریے کا خام مواد ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ عمل پہلے ہوتا ہے جس سے نظریے کی تشکیل ہوتی ہے، نظریے کی تشکیل بھی ایک عمل ہی تو ہے۔ یوں ایک گہرا تجربہ یا عمل بیک وقت نظریہ بھی ہوتا ہے۔
نظری علم اور تجربے کی واٹرٹائٹ تقسیم کے نتیجے میں ”ثقاہت“ کی مؤکد شرط کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شعور دانش وروں تک ہی محدود ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ حد قائم ہوتی ہے کہ رسمی تعلیم والا پیچیدہ نظریات تک رسائی نہ ہونے کی بنا پر سیاسی شعور کا حامل نہیں ہو سکتا۔ یہی ”نظریہ سازی“ عوامی مزاحمت کو پست کہنے کا جواز دیتی ہے حالانکہ سیاسی بیداری اسی پست شعور سے جنم لیتی ہے۔
نظری علم کی اولیت اور اس کی عمل سے علیحدگی پر اصرار میں ایک مزید مشکل یہ آتی ہے کہ نظریاتی قطعیت اور استبداد لازمی ہو جاتا ہے۔ وہ یوں کہ پھر نظریے کو اپنی بالادستی اور جواز کے لیے اور عمل پر نکتہ چینی کے لیے صرف اپنی ثقاہت کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ نظری ثقاہت نظریے سے نہیں عمل سے ثابت ہوتی ہے۔ بیٹھ کر پہلے ثقہ نظری علم وضع کرنا اور پھر اسی کو نظر و عمل کی ثقاہت کا پیمانہ بنانا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یعنی ثقاہت کا وجود ثقاہت کا تصور قائم کر لینے سے نہیں ہو گا۔ اگر ”تصویر“ کے بغیر ”تصوریت“ ممکن ہے تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ محض تصور ہی تصور ہی ہو، اس کا مصداق کہیں بھی نہ ہو۔ بہرحال، ثقاہت کا فیصلہ نظریہ و عمل کی جدلیت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ تنقیدی نظریہ خود اختلافات کا شکار اور فکری ٹولیوں میں تقسیم ہے اور ثقاہت پر مبنی کوئی غیر متنازعہ سچائی نہیں جسے ”بلا تنقید“ کے حل کے طور پر قبول کر لیا جائے۔
نظریاتی استبدادیت کا کرشمہ ہے کہ نظری نیام سے نکلی ثقاہت کی تلوار ایسے تمام علوم و تجربات موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے جس تک نظریہ ساز کی رسائی نہیں ہوتی یا ان کے طریقہ کار پر مہارت نہیں رکھتا یا پھر وہ ان سے بوجوہ نفرت و کراہت رکھتا ہے یا ویسے ہی ان پر اسے اعتبار نہیں کہ وہ اس کے تنقیدی شعور کے لیے اجنبی ہیں۔
نظری تقدیم کی قطعیت ایسی متعصبانہ ہے کہ اپنی اطلاقی حدود سے تجاوز کیے بغیر نہیں رہتی۔ چونکہ دستیاب تنقیدی اوزار بذات خود جدید ہیں اس لیے ان کے ہمراہ تنقیدی مہم پر نکلنے کا پہلا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ماقبل جدید نظریات و تجربات یکسر مسترد کر دیے جائیں۔ جدید چھری ماقبل جدید خربوزہ نہیں کاٹ پاتی تو چھری بدست ناقد خربوزے کو خربوزہ ہی مانتا، حالانکہ اسے چھری کی ساخت اور دھار پر دھیان دینا چاہیے۔ ہمارے تنقیدی شعور سے لبریز اور سیاسی شعور سے لبالب اکابر اور دوست احباب اپنے ثقہ نظری علم پر اندھے اعتماد کے اندھیرے میں یہ تیر تو چلا دیتے ہیں کہ ماقبل جدید علم اپنی ثقاہت مکمل طور پر کھو چکا ہے لیکن وہ یہ امکان زیرغور نہیں رکھتے کہ جدید علم اور نظریات ماقبل جدید علم و عالَم کا تجزیہ کرنے اور اس پر حکم لگانے کے لیے ثقاہت سے یکسر عاری اور محروم ہیں۔ اگر ماقبل جدید علم جدید دنیا کے لیے ثقاہت کھو چکا ہے تو جدید دنیا نے ماقبل جدید علم کے ثقاہت ابھی تک قائم ہی نہیں کی۔ تنقیدی نظریات کی پہلی عطا اگر انقطاع ہی ہے تو پھر یہ جزوی و استثنائی اور یک طرفہ نہیں کلی، قطعی اور دوطرفہ ہونا چاہیے۔ ماقبل جدید علم کو اس کی اوقات، وقعت اور وقت دکھانا اچھی بات ہے پر جدید علم کو بھی یہ سب کچھ دکھانا چاہیے کہ نہیں؟ علمی دیانت یہی ہے کہ تنقیدی اوزار کا استعمال اسی علم پر کیا جائے جو تنقیدی نظریات اور جدید دنیا کے جنم کے بعد آیا ہے۔ ماقبل جدید کو اگر یہ حق نہیں کہ وہ جدید پر حکم لگائے یا اس کا تجزیہ کرے تو جدید کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ ماقبل جدید کا تجزیہ کرے اور اس پر قطعی حکم لگائے؟ دانش مندی تو یہی ہے کہ جدید سے لڑائی میں ماقبل جدید سے کمک لی جائے، چلو میدان میں نکلنے سے پہلے کوئی نظریاتی تلوار بنا ہی لی ہے تو تجربے کے میدان میں اس کی ساخت میں تبدیلی پر سوچنے اور ماقبل جدید کی ڈھال لے لینے میں کیا دقت ہے؟ اقدامی اور دفاعی دونوں ہتھیار ایک ہی سپلائر سے لینے والا یودھا کبھی جنگ نہیں جیت سکتا۔
یہ طویل تبصرہ کبیر علی کی مندرجہ ذیل اہم پوسٹ پر ہے: